ওয়া আলাইকুমুস-সালাম ওয়া রাহমাতুল্লাহি ওয়া বারাকাতুহু।
বিসমিল্লাহির রাহমানির রাহিম।
জবাবঃ-
আলহামদুলিল্লাহ!
(রাসূল ﷺ কে উদ্দেশ্য করে এমন কোনো কথা বলা উচিত নয় যাতে মনে হয় যেন তিনি জীবিত এবং শুনছেন। তিনি ﷺ বারজখের জীবনে জীবিত, আমাদের প্রেরিত দুরুদ তাঁর নিকট পৌঁছানো হয়।
সুতরাং হে নবী! ভালবাসি বা আমাদের পিতা মাতা আপনার প্রতি উৎসর্গিত হোক, এইরকম কথা বলা যাবে।
لما فى امداد الفتاوی:
"بارادۂ استعانت و استغاثہ یا باعتقاد حاضر وناظر ہونے کے منہی عنہ اوربدون اس اعتقاد کے محض شوقاً و استلذاذاً ماذون فیہ ہے، چوں کہ اشعار پڑھنے کی غرض محض اظہار شوق و استلذاذ ہو تاہے؛ اس لیے نقل میں توسع کیا گیا، لیکن اگر کسی جگہ اس کے خلاف دیکھا جائے گا منع کر دیا جائے گا۔"(١١ / ٥٧٥، بعنوان یا رسول اللہ کہنا، ط: زکریا بک ڈپو ہند)
"اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم" میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ نے "یا رسول اللہ" کہنے کی پانچ صورتیں ذکر کی ہیں:
۱) شعراء کی طرح تخیل میں حضور ﷺ کو خطاب کرکے "یا رسول اللہ کہنا۔
۲) اظہارِ محبت کے لیے یا رسول اللہ کہنا۔
۳) اس عقیدہ کے ساتھ کہنا کہ فرشتہ درود پہنچاتے ہیں۔
۴) روضہ اطہر پر یا رسول اللہ کہنا۔
۵) اس عقیدہ کے ساتھ کہنا کہ حضور ﷺ براہِ راست خود اس درود کو سن رہے ہیں۔
پہلی چار صورتوں میں "یا محمد "کہنا جائز ہے اور پانچویں صورت میں ناجائز ہے۔"(اختلاف امت اور صراط مستقیم، ص: ۴۸،مکتبہ لدھیانوی)
وفى فتاوی رحیمیہ:
"(سوال۳۷ ) یارسول اللہ کہنا جائز ہے یا نہیں؟
(الجواب) یارسول اللہ کہنے میں بڑی تفصیل ہے، بعض طریقے سے جائز اور بعض طریقے سے ناجائز ہے ۔